اسلام کا محاسبہ یوروپ سے درگذر

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

اسلام اور مسلمانوں پر انسانیت کے دشمنوں کی طرف سے جو چارج شیٹ لگائی گئی ہے اُس کے اہم نکات میں سے عدم رواداری، بنیادپرستی، خواتین کی حقوق تلفی اور تاریک خیالی ہیں۔ دن رات یہ تاثر دینے کی کوشش چل رہی ہے کہ ”اسلام کے اڑیل غیرلچک والے رویہ“ کی وجہ سے ساری دنیا میں خلفشار پھیلا ہوا ہے۔ یہ چارج شیٹ شاید تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ جھوٹی اور خلاف حقیقت چار شیٹ کہی جاسکتی ہے ۔ عملاً دنیا میں جو ہورہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ دنیا کی ظالم طاقتوں نے مل کر دنیا کے وسائل اور انسانوں کو اپنا غلام بنانے کے لئے ایک پلان بنایا ہے اس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں چیلنج کرنے والی کوئی طاقت اور نظریہ باقی نہ رہے۔ کمیونزم کی شکست کے بعد ”قوم پرستی“ اور ”اسلام“ ہی دو خطرہ ہیں۔ ”قوم پرستی“ بڑا خطرہ اس لئے نہیں کیونکہ یہ انہیں انسان دشمنوں کا ایجاد کردہ ہے۔ اسلام ہی اکیلا چیلنج ہے جو موجود ہے۔ اور اسلام کے تعلق سے اس انگریزی مقولہ پر عمل ہورہا ہے کہ ”کتے کو مارنے سے پہلے اسے پاگل مشہور کردو“۔ مغربی ممالک ایک ”گینگ“ کی صورت میں اپنے اپنے حصہ کا رول ادا کررہے ہیں اور ”سردار“ اُن کو حرکت میں رکھ رہا ہے۔ اسلام کے خلاف جنگ میں اُن کا اہم حربہ مسلمانوں میں غیرمرکزیت اور فواحش و منکرات کا فروغ ہے۔ اس مہم کو جمہوریت کے ”قیام“ اور ”خواتین کی آزادی“ کی مہم کا نام دیا ہے، جمہوریت کے تعلق سے اُن کے منافقانہ رویّہ کی کھلی اور تازہ ترین مثال فلسطین، ترکی، اور فرانس میں دیکھنے میں آئی۔ فلسطین میں جمہوری طریقہ سے الیکشن جیت کر آنے والی جماعت کو ساری مغربی دنیا اور غیراسلامی دنیا نے منظوری اور مدد نہیں دی۔ اس پر پابندیاں لگادیں۔ انصاف پسندی کی مثال دیکھئے حماس کی ٪۷۰ سیٹیں ہیں اوراس کے وزراء کی تعداد ۱۹ میں سے ۹ ہوگی فتح کی نشستیں ٪۲۵ ہیں اس کے وزیر ۶ ہوں گے۔ یہ ہے انصاف جو مکہ المکرمہ میں کیاگیا ہے مگر مغرب ابھی بھی ناراض ہے۔ اورحماس کی سرکار کو مانا نہیں جارہا ہے۔

ترکی میں صدارتی انتخاب میں اسلامی رجحانات کے حامل متوقع امیدوار عبداللہ گل کے وزیراعظم طیب اردگان کے ذریعہ اعلان کئے جانے پر یہ معاملہ اٹھادیا کہ عبداللہ گل اسلام پسند ہیں اور ان کی بیوی اسکارف باندھتی ہیں اورایسی خاتون ملک کی خاتون اوّل کے طور پر قصر صدارت میں پہنچنا ترکی میں شوشلزم کے لئے بڑا خطرہ ہوگا۔ وہاں کی مغرب زدہ فوج نے دھمکی دی۔ اور انقرہ اور ازمیر میں بڑے بڑے مظاہرہ کرائے گئے کہ اسلام پسندوں سے ترکی کو خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ یہ صدارتی انتخابات عدالت نے ایک قانونی حیلہ سے جولائی تک کے لئے ٹال دئیے۔

دوسری طرف دیکھیں کہ اسی ماہ فرانس میں صدارتی الیکشن ہوئے۔ جس میں ایک انتہاپسند عیسائی، صہیونیت کا حامی، بیرونی مہاجرین کا مخالف اور کھلے بندوں سرمایہ داری اور امریکہ واسرائیل کی حمایت کرنے والا شخص نکولس سارکوزی صدر منتخب ہوگیا۔ مگر دنیا میں کوئی چرچا نہیں کوئی ہنگامہ نہیں کوئی بحث نہیں۔

ترکی کے رکن امیدوار پر ہی ہنگامہ اور فرانس میں کٹر اور انتہائی سخت تنگ نظر شخص کے منتخب ہونے پر بھی کوئی ہنگامہ نہیں۔ جب کہ طیب اردگان کی پارٹی نے اپنے چار سالہ اقتدار میں یورپین یونین میں شامل ہونے کے لئے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے مغربی ممالک کو اعتراض کا موقع ملے۔ اس کے برعکس فرانس میں سارکوزی کے مقابلہ نرز اور سیوکلر صدر نے بدنام زمانہ قانون پاس کرکے لاگو کرایا کہ کوئی بھی خاتون اسکارف یا مذہبی علامت پہن کر اسکول نہیں آسکتی۔ جبکہ طیب اردگان کے ترکی میں ایک خاتون ممبرپارلیمنٹ کو اسکارف باندھ کر پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک نہیں ہونے دیاگیا۔ دراصل یہ ساری بہانہ بازیاں اپنے اصل مکروہ اور ظالمانہ عزائم کو پوشیدہ رکھنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔ جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے اور ڈکٹیٹروں کی حمایت کی جاتی ہے۔ میانمار کے ڈکٹیٹروں، پاکستان کے ڈکٹیٹر، مصر کے ڈکٹیٹر، مغربی ممالک کے منظور نظر کیوں ہیں؟ پاکستان کے صدر / ڈکٹیٹر پاکستان کو جدید فلاحی ریاست بنانے کے لئے مدرسوں کی اصلاح کے لئے بلیئر اور بش، جاپان اور جرمنی سے کروڑوں روپیہ لے رہے ہیں۔ خواتین کی آزادی کے لئے مقابلہٴ حسن کا انعقاد ہورہا ہے وہاں کی خاتون وزیر اسپین جاکر ہواباز کی گردن میں بانہیں ڈال کر فوٹو کھنچواتی ہیں، لاہور میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا جاتاہے جس میں مرد اور عورت ایک ساتھ حصہ لے کر شہر میں دوڑتے ہیں، مختارن مائی کی عصمت دری پر رونے والے اسلام آباد میں خواتین کی عصمت فروشی کو ”خواتین کی آزادی“ کے نام پر حلال کرلیتے ہیں۔ اور مغربی آقا بھی مختارن مائی کو اقوام متحدہ کی ”برانڈ ایمبیسڈر“ بناتے ہیں مگر ”کوثربی“ پر ہونے والے شرمناک ظلم پر ابھی تک زبانیں گنگ ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ مغرب کن عوامل کے ذریعہ انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ ایک تو انسانیت میں بے حیائی اور شراب، جوا کافروغ ”تہذیب“ اور ”آزاد خیالی“ و ”روشن خیالی“ کے نام پر کرتا ہے۔ دوسرے عقیدہ میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے ”برداشت“ اور ”رواداری“ کے ناموں کا استعمال کرکے اسلامی دنیا میں اس کے لئے ماحول تیار کرتا ہے۔ ترکی میں صدارت کے اسلام پسند امیدوار کے رائے عامہ کو بنانے کے لئے مغرب نے ایک طرف تو اپنے ایجنٹوں کو سڑکوں پر اتارا ہے کہ وہ ”شریعت منظور نہیں ہے“ کے نعرہ لگائیں دوسری طرف پورا مغربی میڈیا اس مہم پر لگ گیا ہے کہ ان مصنوعی مظاہروں کو دنیا بھر میں نمایاں کرکے پیش کرے۔ فلسطین میں حماس کے مقابلہ کے لئے فتح کو نمایاں کیا جارہا ہے۔ اور فرضی ناموں کے انٹرویو دکھاکر اسے رائے عامہ بتاکر پیش کیا جارہا ہے کہ عوام اب اکتاگئی ہے اور وہ اب آزادی کی جنگ نہیں لڑنا چاہتی ہے۔ نوبت یہاں تک ہے کہ امریکہ اوراسرائیل نے مل کر ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا اسلحہ گذشتہ ماہ (اپریل ۲۰۰۷/) میں مصر کے ذریعہ الفتح کو بھجوایا ہے۔ تاکہ وہ حماس کے مقابلہ میں کمزور نہ پڑے۔ مئی ۲۰۰۷/ کے دوسرے ہفتہ میں جو برادرکشی فلسطین میں جاری ہے اس میں الفتح کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے سیدھے حماس کو نشانہ بنایاہے۔ اور ۴-۵ دنوں میں میزائیل حملوں میں ۲۰ سے زائد حماس رکن اور بے گناہ فلسطینی شہید کردئیے گئے۔ سوڈان میں عرصہ سے یہ منافقین جنوبی لبنان کے عیسائیوں کی بھرپور مدد افریقی ممالک کے ذریعہ کررہے ہیں۔ وسطی ایشیا کی تمام جمہوریاؤں میں ڈکٹیٹروں کی مدد کرکے عوام کو دبارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تمام اداروں کا استعمال مسلمانوں میں آپسی انتشار کو بڑھانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مجرم اور عیاش صدر سابق امریکی نائب وزیر دفاع کی جو گرل فرینڈ شاہ علی رضا ہیں وہ نام نہاد خواتین کی حقوق کی علمبردار ۵۱ سال کی ہیں۔ اور پال ولفووٹز سے عشق لڑا رہی ہیں اوراسی کلچر کو کہ ۵۱ سال کی عمر میں عاشقی فرمائی جائے وہ پھیلانے کے لئے دنیا بھر میں کوشاں ہیں یعنی دنیائے اسلام میں ان کا خاص میدانِ کار شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا ہے۔ اور دونوں کی دوستی ۹۰ کی دہائی کی شروعات میں تب ہوئی جب دونوں ”نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی“ سے جڑے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ پال ولفوٹز ایک کٹریہودی اور عراق کے خلاف امریکی جنگ کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے۔ ورلڈ بینک میں اپنی تصویر غریبوں کے ہمدرد کی بنائی ہے۔ اور شمالی افریقی ممالک نے اس معاشقہ پر چٹکی لیتے ہوئے بجا ہی کہا ہے کہ ہمیں بات بات پر کرپشن کا طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ غریبوں کی امداد کی رقم کے بل بوتے پر عاشقی منائی جارہی ہے۔ عورتوں کی ہمدرد گرل فرینڈ کی غیرقانونی ترقی دے کر اس کی تنخواہ 133000امریکی ڈالر سے بڑھا کر 193000 امریکی ڈالر کردی ہے۔ اسی طرح کی دوسری مسلم خاتون امریکہ کی محکمہ خارجہ میں شیریں طاہر خیل ہیں امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات کی ذمہ دار ہیں۔ ان کی بھی یہی خصوصیات ہیں۔ گذشتہ ماہ ہندوستان آمد پر ایک اخبار کو انٹرویو دیا اور دل کھول کر بالکل صاف صاف عراق پر امریکی حملہ کی حمایت کی کہ اس سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ہالینڈ میں پرس علی افریقہ نزاد خاتون کو سارے مغربی میڈیا نے خوب سرپر چڑھاکر رکھا کیونکہ وہ قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب تنقیدیں کرتی تھی۔ سیاسی طور پر دیکھیں تو ہر ملک کے انتہائی کرپٹ حکمرانوں کو انہیں ”اصلاح پسندوں“ کے در پر جائے امان ملتی ہے۔ تمام مسلم دنیا کے کرپٹ حکمراں اور سیاست داں یہیں پناہ گزیں ہیں۔ سلمان رشدی اور فتنہٴ امامت خواتین کی بانی اسریٰ نعمانی سے لے کر بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین جیسے استحصال پسند اور مغرب کے ایجنٹ لندن سے ہی کاروبارِ قتل وخون چلارہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ مغربی شاطر مسلم دنیا کی غریبی اور ابترحالت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں دوسری جانب جو لٹیرے اِس ابتر صورت حال کے لئے ذمہ دار ہیں انہیں اپنے گھروں میں امان دیتے ہیں ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اپنے یہاں بینکوں میں جمع کرکے اُس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ صومالیہ کی مثال بالکل تازہ ہے جہاں پڑوسی عیسائی ملک کی فوج کو اپنے ایمان فروش ایجنٹوں کے ساتھ صومالیہ پر قبضہ کرادیا۔ اور وہاں کشت وخون جاری ہے۔ مغرب کا اسلحہ بھی فروخت ہورہا ہے اور مسلمان آپسی انتشار میں بھی مبتلا ہورہا ہے۔ یہاں پر غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ حقوق نسواں، ڈیموکریسی، ورلڈ بینک ان سب کا آپس میں رشتہ کیاہے؟ ایک کٹر یہودی کی صدارت میں ورلڈ بینک افریقی ممالک کی معاشی مدد کن شرطوں پر اور کیوں کررہا ہے؟ پاکستانی مسلح گروپ ”جند اللہ“ سے ایرن پر حملہ کون کرارہا ہے؟ مغرب نواز کردوں کے ذریعہ ترکی اور ایران میں کون بم دھماکہ کرارہا ہے؟ لبنان کی حکومت کو فتح کے مسلح گروپ پر لبنان میں فوج کشی کے لئے امریکہ ۳۰۰ ملین ڈالر کے ہتھیار کون دے رہا ہے؟ عراق میں کرد امریکی مفادات کا تحفظ کیسے کررہے ہیں؟ اس پلاننگ کا ایک اہم پہلو عقیدہ کو مضمحل کرنا ہے اوراس کے لئے فری میسن طرز کے ہتھکنڈہ ابھی بھی اپنائے گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں اُن کے قبل اسلام ماضی کی تاریخ اور تہذیب کو آرٹ اور Ethnicity کے نام پر بڑھایا جارہا ہے۔ افریقی ممالک، مصر، انڈونیشیا ہر جگہ قدیم کی طرف رجوع کے نام پر غیراسلامی تہذیب کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ۱۸/مئی کے اخبارات میں سینگال کے تعلق سے رائٹر کی یہ خبر میرے مدعا کو بہتر طور پر سمجھا سکتی ہے ”مریدی فرقہ ۱۸۸۷/ میں فرانسیسی غلامی کے زمانہ میں فاتح ہوا تھا۔ یہ فرانسیسیوں کے خلاف بغاوت اور کلچرل پروجیکٹ تھا۔ جس میں اسلامی اور مقامی روایات کو یکجا کیاگیا تھا۔ مریدیوں نے کہا اگر ہم اپنی مساجد بنانے کے لئے سعودیوں سے پیسہ لے لیتے تو پھر ہمیں انہیں کے طریقہ سے عبادت کرنی پڑتی۔ مغربی افریقہ میں سعودی مدد سے مسجدیں بنی ہیں جس سے وہاں وہابی نظریات کا فروغ ہوسکتا ہے۔ جبکہ مریدی رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔ مریدیہ اپنی آزادی اور مذہبی تسکین کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ مگر دیگر مسلم ممالک کی طرح ان کی عورتیں برقعہ پوش نہیں ہوتی ہیں آزادی سے گھومتی ہیں۔ اس طریقہ کی ایک شاخ تو ایسی ہے جس میں نماز روزہ کی پابندی نہیں ہے۔ بلکہ شراب پینے اور دیگر نشہ کو بھی منع نہیں کیاجاتا۔ اسے بائی فال کہا جاتا ہے۔ اس گروپ کے شیخ تیدین سامب نے کہا اسلام امن کا مذہب ہے یہ ہمیں لوگوں کو کلاشنکوف سے مارنا نہیں سکھاتا۔ یہ لوگ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حج کیلئے مکہ جانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ ”توبا“ (بانیٴ فرقہ مریدیہ کی جائے پیدائش) آکر اتناہی ثواب حاصل کرسکتا ہے۔ نیویارک میں یہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور ”لٹل سینگال“ نام کی برادری قائم کررکھی ہے۔ (ہندوستان یکسپریس، ۱۸/مئی ۲۰۰۷/)

خط کشیدہ جملوں پر غور فرمائیں کہ ”رائٹر“ (ایک جرمن یہودی کی ایجنسی) کس قسم کی خصوصیات مسلمانوں میں پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے پندرہ دنوں (مئی ۲۰۰۷/ کے پہلے پندرہ دن میں) بوسنیا سے خبر آئی کہ وہاں کے مقامی یورپین مسلمانوں نے باہر سے آئے مجاہدین سے نفرت کرنی شروع کردی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ سخت قسم کے مسلمان ہیں اور بوسنیائی مسلمان آزادی، شراب نوشی، سور کی گوشت خوری اور آزادانہ جنسی اختلاط اور نائٹ کلب کی زندگی کے عادی ہیں۔ اسی طرح کی خبریں تواتر اورتسلسل کے ساتھ پورے میڈیا اور ہندی، انگلش سب میں یکساں الفاظ میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ انڈونیشیا اور وسطی ایشیا کے بارے میں بھی ہمیں یہ ایجنسیاں بتاتی رہتی ہیں کہ وہاں ”صوفی اسلام“ اشاعت پذیر ہے اور ”سخت گیر“ ”کٹر“ ”وہابی مسلمان“ کم ہورہے ہیں اِن تمام رپورٹوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ آزادی پسند، حرام وحلال سے بے پرواہ اور شراب اور جوا کے عادی ہوتے ہیں اور ایسے ہی مسلمان اچھے اور روادار کہلاتے ہیں اوراسی طرح کے مسلمانوں کو اسلامی دنیا میں فروغ دینا ہے۔ اسی لئے حماس کے مقابلہ فتح کی حمایت کی جارہی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور مشرف سے امریکہ ماتحتی میں سمجھوتہ کرایاجارہا ہے۔ ترکی میں مظاہرہ کراکر اسلام پسند سیاستدانوں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک جانب تو مسلمانوں اور عالم اسلام کے حکمرانوں میں مذہب سے دوری پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش دن رات جاری ہے۔ دوسری طرف تمام مغربی اور مشرقی ممالک کے معاشرہ اور ان کے حکمراں زیادہ سے زیادہ اپنے مذاہب سے وابستہ ہورہے ہیں۔ وہاں کٹر مذہبی گروہ حکومتوں پر حاوی ہورہے ہیں۔ نام نہاد دہشت گردی اور ”اسلامی انتہا پسندی“ کے خلاف جنگ میں آگے تمام ممالک میں اِس وقت مذہبی’ نسلی انتہاپسند براہ راست یا بالواسطہ اقتدار میں ہیں۔ امریکہ’ برطانیہ، فرانس، اسرائیل، جرمنی ہر جگہ انتہائی کٹر عیسائی و یہودی ذہن کے حکمراں اور نوکرشاہی حکومت کررہی ہے۔ قارئین بش اور بلیئر کے اُن صلیبی اعلانوں کو بھولے نہیں ہوں گے کہ ”عراق کے خلاف جنگ خدائی حکم ہے“ یا یہ کہ ”میں خدائی مرضی پوری کررہاہوں“۔ اس کے علاوہ آپ بش کے بڑے بڑے فیصلہ دیکھیں کلوننگ، اسقاط حمل، Stem cell پر تحقیق سب مسئلوں میں بش نے عیسائی مذہبی پیشواؤں کے خیالات کی تائید کی ہے۔ بلیئر بھی اپنے یہاں قدامت پسند عیسائی روایات کو قدیم کی طرف رجوع Return to basics کے نام پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہی حال جرمنی، اٹلی، فرانس، ہالینڈ ہر جگہ ہے۔ یا تو مدہبی انتہاپسند حکومت کررہے ہیں یا جنونی وطن پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے یا بالکل ہی جانور بنانے کی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے؟ جن باتوں یعنی قدامت پرستی، بنیادپرستی، عدم رواداری وغیرہ پر عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہی تمام خصوصیات یوروپ، امریکہ اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والے ہر ملک میں بڑھائی جارہی ہیں۔ یعنی جوا وروں کے لئے برا ہے اِن ٹھیکیداروں کے لئے اچھا ہے۔

عالم اسلام کی انسانی ذمہ داری: یہ ہے کہ وہ تارِ عنکبوت کو تار تار کردے۔ اور تمام دنیا کے سامنے انصاف، عدل، امن، امربالمعروف ونہی عند المنکر کے مقاصد کو حاصل کرنے والے نظام کی طرف متوجہ کرائے۔ اللہ کا دیا ہوا نظام ہی دنیا کے مسائل کو حل کرکے اسے جنت بناسکتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، ہتھیاروں کی اندھا دھند تجارت، صارف کلچر Consumerism سرمایہ کی لوٹ اخلاقی قدروں کی پامالی، نشہ کی بڑھتی لت، جانوروں کی حد تک گری ہوئی جنسی حرکات جیسی لعنتوں سے تمام عالم پریشان ہے اور دنیا کے نام نہاد غنڈہ ٹھیکیدار اپنے مذموم مقاصد کے تحت تریاق کو زہر بناکر پیش کرنے کی مہم میں آگے ہیں۔ کیونکہ اس سے اُن کی لوٹ، کھسوٹ، ظلم اور اجارہ داری کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اِس وقت دنیا میں تمام منفی پروپیگنڈہ اور گھناؤنی شازشوں، فریب کارانہ بم دھماکوں اور انکاؤنٹروں، بی․ بی․ سی اور ”دیش بھگت“ میڈیاکی دن رات کی زہرفاشانیوں کے باوجود اسلامی تعلیمات کا سورج اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ اسلام دلیل کے میدان میں، پرامن طریقہ سے بات منوانے کے میدان میں کبھی کمزور نہیں رہا ہے اور نہ رہے گا کیوں کہ یہ اللہ علیم و خبیر کا پیغام ہے۔ اسلام آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ تو ہے ہی ساتھ دنیا کو بھی جنت بنانے کا کام یہ اپنے پیرؤں کو دیتا ہے۔امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کستوری ہرن کی طرح اپنی مشک کی خوشبو کو اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجائے ستارئہ صلیب، ہاتھ، ہتھوڑا، ہنسیا، ہاتھی، سائیکل میں ڈھونڈھ رہا ہے۔ جبکہ وہ جس روشنی اور ہدایت کا امین ہے وہ اِن سب کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔ دنیا کے لئے امن انصاف اورحقیقی مسرت کا پیغام ہے۔ اس پیغامِ امن وفلاح کی بے کم و کاست تبلیغ و ترویج ہی امت مسلمہ کے لئے دنیاوی افتخار اور نصرت خداوندی کا ذریعہ بن سکتی ہے باقی تمام راستے غلامی، بے بسی اور ذلت کے ہی ہیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 91 ‏، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء